حوزه نیوز ایجنسیl
ایک عمارت بجری کرش اینٹ سیمنٹ اور لوہے سے بنتی ہے آنے جانے کے لئے اس میں دروازے ہوتے ہیں باہر کی کھلی ہوا اور اندر کے ٹمپریچر کو کم رکھنے کے لئے کھڑکیاں لگائی جاتی ہیں دھوپ اور بارش سے بچنے کے لئے چھت اور چھت کے نیچے فرش ہوتا ہے اسی طرح قدرت نے بھی ایک عمارت بنائی ہے جسے ہم جسم کہتے ہیں ہمارا یہ جسم اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خلیات (cells ) سے بنایا ہے اربوں کھربوں خلیات کی یکجائی کو جسم کہتے ہیں سائنس کہتی ہے یہ خلیات ہمارے جسم میں ٹوٹتے پھوٹتے رہتے ہیں شکست و ریخت کا یہ عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا [ظہور ترتیب یعنی تعمیر اجزاء کا پریشاں ہونا یعنی تخریب،سمٹنا اور بکھرنا ]
زندگی کیا ہے بس اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
دم ہوا کی موج ہے رم کے سوا کچھ بھی نہیں [دم یعنی سانس ،زندگی کیا ہے ؟ چند آتی جاتی سانسیں،سانس کیا ہے ؟ ہوا کی موج اور ہوا کا کام کیا ہے ؟ بکھرجانا ]
مطلب یہ کہ ہم بنے ہیں ٹوٹنے اور بکھرنے کے لئے ہر آدمی ٹوٹ رہا ہے بکھر رہا ہے بچپن بکھرا تو جوانی آئی جوانی بکھری تو بڑھاپا آیا بڑھاپا بکھرا تو کچھ بھی ہاتھ نہ آیا_ مٹی کے قالب کی شیرازہ بندی روح نے کی تھی اسی روح نے جسم کو قدوقامت اور خدوخال دئیے تھے اسکی نس نس میں شادابی کی لہریں دوڑادی تھیں وہ اڑ گئی یہ بکھر گیا_
ہمارے ملک ہندوستان میں شہر مراد آباد ظروف سازی کے لئے بہت مشہور ہے،بچپن کی بات ہے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن مراد آباد سے ایک کف گیر ساز علی پور آیا اور میرے محلہ میں آکر اس نے صدا دی،کف گیر بنوالو،کف گیر بنوالو، میری والدہ مرحومہ نے کہا بیٹا اس سے گھر کے لئے ایک کف گیر بنوالو میں نے اسکو بلایا تو وہ آیا اور زمین پر بیٹھ گیا اس نے جست کا پرانا برتن اور ایک لوٹا پانی طلب کیا تھوڑی مٹی جمع کی اور پانی سے اس مٹی کو خوب نم کیا جب مٹی نم ہوگئی تو اسنے اپنے تھیلے سے ایک کف گیر نکالا جو پہلے سے اس کے پاس موجود تھا اور اسکو نم شدہ مٹی میں دبا کر اسکا سانچہ بنالیا پھر جست کے برتن کو آگ میں پگھلا کر دھات کے گرم سیال کو سانچے میں انڈیل دیا کف گیر نکال لیا اور مٹی کے سانچہ کو دوبارہ مٹی میں ملا کر آگے کو چل دیا یہی زندگی کی کہانی ہے کہ انسان مٹی سے اٹھتا ہے اور پھر مٹی میں ہی مل جاتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ مٹی کے اس ڈھانچہ سے کونسا جوہر نکلتا ہے۔
جسم یعنی خلیات کی یکجائی
وقت یعنی لمحات کی یکجائی
جسم کے لئے جو اہمیت ایک خلیہ کی ہے زندگی کے لئے وہی اہمیت ایک لمحہ کی ہے۔
خلیہ اور لمحہ ہم قافیہ ہی نہیں ہم مرتبہ بھی ہیں " کورونا" خلیات پر حملہ اور ہوتا ہے اور بیکاری اوقات پر حملہ کرتی ہے اسکی ہلاکت مرئی ہے یعنی دکھائی دیتی ہے اور اس کی ہلاکت حسی ہے یعنی صرف محسوس ہوتی ہے_
خلیات کی ترتیب فطرت کے زمہ ہے اور لمحات کی تنظیم بندوں کے زمہ ہے اسی لئے دین اسلام نے ہر عبادت کا ایک وقت مقرر کردیا نماز کا وقت معین ہے
أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ﴿٧٨﴾؛آپ زوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کریں اور نماز صبح بھی کہ نماز صبح کے لئے گواہی کا انتظام کیا گیا ہے۔[سورة الإسراء ۷۸]
اسی طرح حج کا وجوب سال کے مخصوص مہینہ میں اور پھر حج کے تمام مناسک احرام سعی حلق و تقصیر طواف رمی جمرہ وقوف عرفہ اور عید ان میں ہر ایک کی ادائیگی کے لئے ایک وقت مقرر ہے زکات نصاب پورا ہونے پر ہے خمس کی فرضیت بچت پر ہے نیز سورج کا طلوع و غروب ستاروں کی گردش موسم کی تبدیلی غرض خلقت سے لیکر شریعت تک ہر حکم اور ہر پرزہ وقت کے چنگل میں ہے گرمیوں میں اگنے والے پودے سردیوں میں نہیں اگتے سردیوں میں لگنے والے پھل گرمیوں میں نہیں لگتے ام اور جام ( جنوب ھند میں امرود کو جام کہتے ہیں ہمارے مضامین پڑھا کیجے تاکہ ساؤتھ کی طرف کبھی آنا ہو تو دقت قدرے کم ہو) گنا اور انار سب اپنے اپنے وقت پر آتے ہیں۔
اسی طرح حکم روزہ کے بعد سحری اور افطاری کھانے کے اوقات و آداب بھی شریعت نے معین کئے ہیں؛ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّـهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ... ﴿١٨٧﴾ ؛تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم انکے لئے لباس ہو خدا نے دیکھا کہ تم گناہ کرکے اپنے آپ سے دھوکہ کرتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تم سے درگذر کرلیا پس اب تم اپنی بیویوں سے مباشرت کرو اور وہ چاہو جو خدا نے تمہارے لئے لکھدہا ہے اور کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ فجر کا سفید دھاگہ رات کے سیاہ دھاگے سے باہر آکر تمہارے سامنے ظاہر ہوجائے پھر تم روزہ کو رات تک پورا کرو ...۔[سورة البقرة ۱۸۷]
قرآن مجید نے جائز چیزوں کے استعمال پر وقتی پابندی لگانے سے پہلے ان کے استعمال کی اجازت دی ہے آیت کے شروع میں کہا تم اپنی عورتوں سے مجامعت کرسکتے ہو اس ایہ کریمہ کے نزول سے پہلے افطار کھائے بغیر سوجانے اور پھر اٹھ کر کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی ممانعت تھی یعنی افطار کے وقت بیدار رہنے کی شرط تھی اور روزہ کی یہ کیفیت کم و بیش تین سال تک رہی کیونکہ روزہ کی فرضیت کا حکم سن دو ہجری کو آیا ہے اور مجامعت کی حلیت والی یہ ایہ کریمہ جنگ خندق کی تیاریوں کے موقع پر نازل ہوئی ہے اور جنگ خندق پانچ ہجری میں واقع ہوئی ہے یعنی عہد رسالت کے لوگوں نے ہم سے زیادہ سخت روزے رکھے ہیں، پہلے قرآن مجید کی بلاغت کا ذرا اندازہ کیجئیے کہا:أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ؛ لفظ " رفث " اپنے اندر جاہلیت زدہ دماغ کے لئے تسکین کا سامان لیے ہوئے ہے اس کا ترجمہ کسی نے مجامعت کیا ہے تو کسی نے ہمبستری اور اختلاط وغیرہ جبکہ ان میں سے کوئی بھی ترجمہ اصلی نہیں ہے بلکہ " رفث " کا کنایہ ہے ( تہذیب قرآن ایسے ہی ترجمہ کی متقاضی ہے)
تفسیر المیزان میں رفث کے معنی" افضاء " بیان ہوئے ہیں یعنی کھول دینا یا پھاڑ دینا کیونکہ مذکورہ آیت میں آگے طیبات کے استعمال پر پابندی کا صریحی حکم آنے والا تھا اسی لئے جتنی سخت پابندی تھی اسی مناسبت سے لفظ " رفث " کا صرف کیا کہ دیکھو اسلام اس میدان میں پیچھے نہیں ہے ہم منع کررہے ہیں تو اس میں تمہاری ہی بھلائی ہے ورنہ دین بھوکے اور پیاسے رہنے نفس کو مشقت میں ڈالنے اور طیبات کے استعمال سے رکنے کا نام نہیں ہے، ہم تمہیں فرض شناس بنانا چاہتے ہیں، لذت پرست بنانا نہیں چاہتے، اور پھر کلوا واشربوا کھاؤ اور پیو جوکہ امر کا صیغہ ہیں اور امر کا صیغہ عموما وجوب کے لئے آتا ہے یہاں استحباب کے معنی میں آیا ہے یعنی سحری کے کھانے کو مستحب قرار دیا یہ صرف کھانا نہیں ہے بلکہ" مبارک کھانا " ہے اور حدیث میں ہے:وَ قَالَ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : تَسَحَّرُوا فَإِنَّ اَلسَّحُورَ بَرَكَةٌ؛سحری کھایا کرو سحری میں برکت ہوتی ہے[بحار الأنوار،جلد۵۹،صفحه۲۹۲]
عربی میں " سحر " رات کے آخری حصہ کو کہتے ہیں،سحر یعنی پچھلا پہر،اور یہ پچھلا پہر ظاہر ہے رمضان المبارک کے گزر جانے کے بعد بھی رہتا ہے اگر کوئی روزے کی نیت کے بغیر مثلا ساڑھے تین بجے رات کو کھانا کھاتا ہے تو اسے سحری نہیں کہتے اسے " ہنگامی ناشتہ " کہتے ہیں سحری یعنی وہی کھانا جو روزہ سے پہلے روزہ کی نیت سے کھایا جاتا ہے یہ صرف اس مہینہ کی برکت ہے کہ اس سے منسوب نام بھی متبرک ہیں اور لفظیں بھی متبرک ہیں۔
سحری کے اوقات کا معین ہونا کوئی سادہ معاملہ یا کوئی معمولی حکمت نہیں ہے یہ پوری زندگی کا نظام ہے؛ مثلا چار بج کر اٹھارہ منٹ پر کھانا پینا بند کر دو،دو ایک منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے ؟ بظاہر فرق تو کچھ نہیں پڑتا لیکن اسلام ایک ایک منٹ کی اہمیت کا قائل ہے یہان روزہ کے ذریعہ وقت کی اہمیت کو بتایا جارہا ہے کہ ایک مہینہ متواتر تم وقت کو فالو کرو تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنے کی تم میں عادت آئے _
دوسری طرف سحری کھانے کے لئے اٹھنے والے شخص کی روح، صبح کاذب کی سحر خیزی اور صبح صادق کی عطر بیزی دونوں سے سرشار ہوتی ہے اس ملکوتی وقت میں جب گھر کی ملکہ سحری بنانے کے لئے بیدار ہوتی ہے اور گھر کا مالک اپنے مالک حقیقی کے حکم کی تکمیل کے لئے آمادہ ہورہا ہوتا ہے تو در و دیوار سےفَسُبْحَانَ اللَّـهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ؛کے نغمے گونجتے ہیں یک گونہ یکسوئی نشاط فرحت اور آسودگی کا احساس ہوتا ہے یہ بہت قیمتی وقت ہوتا ہے؛بقول ایک شاعر کے’’ستاروں کو بجھایا جارہا ہے‘‘یہی وہ وقت ہوتا ہے جب جھلملاتے ستاروں کو بجھایا جاتا ہے تاکہ سورج کی کرنوں سے دن روشن و منور ہو جائے ۔
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
وقت سے پہلے اٹھو اور وقت کے سرے کو پکڑو، جب بل گیٹس امبانی اور عظیم پریم جی جیسے لوگ سورج کو ٹھہرا نہیں سکتے تو گپ شپ کرنے والے لوگ کس خمار میں ہیں ؟ جلدی کرو اور سحری کے اوقات سے رمز حیات یعنی زندگی کا کوڈ حاصل کرو، مہینہ بھر کی ٹریننگ سے سال بھر کی پلاننگ کرو۔
تحریر:سلمان عابدی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔